بنی نوع انسان کی ترقی کی اندھی لگن اور صنعتی انقلاب جنگلی حیات سمیت خود انسانوں کی بقاء کے لیے بھی خطرناک ہے۔
جنگلی حیات (wildlife) ایسے جانداروں کو کہا جاتا ہے کہ جو انسانی اثر و رسوخ سے آزاد ایک قدرتی ماحول میں اپنی زندگی گزار رہے ہوں۔ دنیا میں ہزاروں اقسام کے جنگلی جاندار پائے جاتے ہیں۔ جو جاندار دھرتی سے مکمل طور پر ختم ہوچکے ہوں انہیں معدوم (extinct) جاندار کہا جاتا ہے۔
انسانی تاریخ میں اب تک ہزاروں اقسام کے جاندار کرہء ارض سے مٹ چکے ہیں جن میں مشہور زمانہ وولی ہاتھی (wolly mammoth), ڈائناسور, سیبر ٹوتھ ٹائگر وغیرہ شامل ہیں۔معدومیت کے دو اسباب ہوتے ہیں، ایک تو جاندار قدرتی عناصر یا قدرتی حادثات کے سبب معدوم ہوتے ہیں جیسا کہ ڈائناسور ایک بہت بڑے شہاب ثاقب کے زمین سے ٹکرانے کے باعث کرہ ارض سے مٹ گئے۔ جبکہ دوسرا سبب انسانی سرگرمیوں کے باعث جانداروں کا خاتمہ ہوتاہے۔ جیسا کہ انسانی سرگرمیوں کے باعث ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیاں جنم لیتی ہیں اور ان تبدیلیوں کی وجہ سے آج تک درجنوں جانداروں کی اقسام معدوم ہوچکی ہیں جبکہ سینکڑوں جانداروں کی اقسام معدومیت کے دہانے پر کھڑی ہیں۔
ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیاں (Climate Change & Global Warming) عموماً ہزاروں سال کے عرصہ پر محیط قدرتی عوامل کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ لیکن انسانی تاریخ میں صنعتی انقلاب کے بعد ان تبدیلیوں کے رونما ہونے کی رفتار میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جو کہ ظاہر ہے انسانی سرگرمیوں کے باعث ہورہاہے۔ عالمی تحقیات کے مطابق جس تیزی سے یہ تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اس سے پہلے تاریخ میں کبھی بھی اتنی تیز رفتاری سے یہ تبدیلیاں واقع نہی ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماحولیاتی اور موسمیاتی ماہرین بار بار ہمیں خطرے کی سنگینی کا احساس دلا رہے ہیں۔
جس تیزی سے جنگلی حیات اور دوسرے جاندار دھرتی سے ختم ہورہے ہیں اسے دیکھ کر ماہرین یہ اندازہ لگارہے ہیں کہ شاید 2100ء تک دنیا سے ہاتھیوں, شیروں, گوریلوں, گینڈوں, چیتوں, بلیو وہیل, زرافہ, برفانی ریچھ, ہرن کی زیادہ تر اقسام اور دوسرے تقریبا %50 جانداروں کی اقسام کا خاتمہ ہوجائیگا اورہماری آنے والی نسلیں ان کو دیکھنے سے محروم رہ جائیں گی۔
جانداروں کی حفاظت اور بقاء کیلیے بہت سےعالمی اداروں کا قیام عمل میں آیا ہے جن میں WWF اور IUCN وغیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے بھی کئی ذیلی ادارے جنگلی حیات کی بقاء کیلیے ہمہ وقت کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ عالمی ادارے جنگلی حیات کی بقاء کی خاطر سالانہ کروڑوں ڈالرز خرچ کرتے ہیں، اور پوری دنیا میں ان اداروں کے نمائندے علاقائی سطح پر مختلف اقسام کے حفاظتی اقدامات کے ذریعے ہمارے قدرتی ماحول اورجنگلی حیات کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
اس کے علاوہ تقریبا دنیا کے ہر ملک میں حکومتی سطح پر بھی جانداروں اور جنگلی حیات کے تحفظ کیلیے باقاعدہ محکمے قائم کیے گئے ہیں جو جنگلی حیات کی سلامتی کی خاطر جدوجہد کررہے ہیں۔ ہمیں بھی اپنے معاشرے اور گھریلو سطح پر جانداروں کی اہمیت کے پیش نظرآگاہی پھیلانی چاہیے۔خصوصا اپنے بچوں اور عزیز و اقارب میں۔
ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات:
=> ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا بھرمیں نشیبی جزیروں والے ممالک اور سطح سمندر کے برابروالے شہر اور مقامات زیرآب آجائیں گے۔ جس سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوجائیں گے اور غربت میں اضافہ ہوگا۔
=> بعض ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سیلابوں اور بعض مملک میں شدید قحط سالیوں کا خطرہ ہوگا۔جس سے پانی کی قلت شدید تر ہوجائیگی۔
=> جانوروں کی ہزاروں اقسام ان تبدیلیوں کی بدولت کرہ ارض سے مٹ جائیں گی۔
=> برف اور گلیشئیرز کے پگھلنے سے سمندروں میں سونامیوں جبکہ دریاوں میں طغیانیوں کا خطرہ ہوگا جس سے ہزاروں لوگ متاثر ہونگے۔
=> کچھ جانداروں میں ان تبدیلیوں کا سامنا کرنے کی صلاحیت پیدائیشی موجود ہوتی ہے لیکن جس تیزی سے یہ تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں, کوئی بھی جاندار اس تیز رفتاری کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
=> سمندری پانی خطرناک حد تک تیزابیت کا شکار ہورہاہے جس سے آبی مخلوقات کے وجود کو خطرہ ہے اور مستقبل میں یہ خطرہ شدید تر ہوجائیگا۔
=> تازہ ہوا کے معیار میں تیزی سے خرابیاں پیدا ہورہی ہیں۔ جس سے انسانی جسم اور دیگر مخلوقات پر بہت منفی اثرات ہونگے۔
=> شدید ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی بدولت اب تک ہزاروں انسانوں کی موت واقع ہوچکی ہیں۔ جبکہ مستقبل میں یہ تعداد بڑھ کر لاکھوں تک پہنچ جائیگی۔
=> ہر سال ان تبدیلیوں کی وجہ سے اڑھائی لاکھ لوگ غربت کا شکار ہوجاتے ہیں جبکہ ماہرین کے مطابق 2030ء تک 100 ملین لوگ ان تبدیلیوں کی وجہ سے غربت کا شکار ہوجائیں گے۔